قطار، بظاہر ایک سادہ سا عمل ہے لیکن معاشرتی نظم و ضبط اور میرٹ کی بالادستی میں اس کی اہمیت کلیدی ہے۔ یہ نہ صرف وقت اور وسائل کی بچت کا باعث بنتی ہے بلکہ افراد میں صبر، تحمل اور باہمی احترام جیسے اوصاف کو بھی پروان چڑھاتی ہے۔ بحیثیت مجموعی قطار کا عمل نئی نسل کی کردار سازی اور ذمہ دار معاشرے کی تشکیل میں
بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
1۔ معاشرے میں نظم و ضبط کا قیام:
قطار کا عمل ہمیں ایک منظم طریقے سے اپنے کام کروانے کا درس دیتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف اداروں میں کام کی روانی کو بہتر بناتا ہے بلکہ روزمرہ زندگی کے مختلف پہلوں، جیسے ٹریفک اور عوامی اجتماعات میں بھی نظم و ضبط پیدا کرتا ہے۔ یہ ایک طے شدہ بین الاقوامی اصول ہے جو معاشرتی ہم آہنگی اور ڈسپلن کے لیے ناگزیر ہے۔
2۔ قطار اور میرٹ کا تعلق:
قطار کا عمل نء نسل کو میرٹ پر عمل کرنے کی تربیت اور حق دار کو اس کا حق دینے کی ترغیب دیتا ہے ۔قطار دراصل میرٹ کی بنیاد ہے کیونکہ جس طرح قطار میں جو پہلے آتا ہے اسے پہلے خدمت کا حق حاصل ہوتا ہے، اسی طرح میرٹ کا اصول یہ ہے کہ جو اہل اور حقدار ہو اسے اس کا حق ملے۔ دونوں صورتوں میں انصاف اور مساوات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ قطار کا احترام دراصل میرٹ کے اصول کا احترام ہے۔
3۔ قطار کے اصولوں کی خلاف ورزی کے اثرات:
اگر قطار کے اصولوں پر عمل نہ کیا جائے تو اس کے نئی نسل کی تربیت اور معاشرتی اخلاقیات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسے:
4۔ ناانصافی کا احساس:
نوجوان جب دیکھتے ہیں کہ ان کے سامنے لوگ قطار توڑ کر اپنے کام کروا رہے ہیں، تو ان میں معاشرتی ناانصافی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
5۔ بے صبری اور عدم برداشت:
عام لوگ عموما لیکن نوجوان خصوصا صبر اور تحمل جیسی خوبیوں سے محروم ہو جاتے ہیں اور ان میں ہر چیز فوری طور پر غلط طریقے سے حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔
6۔ اصولوں کی بے توقیری:
مسلسل میرٹ کی خلاف ورزی سے لوگوں میں قوانین اور اصولوں کی پاسداری کا رجحان کم ہو جاتا ہے۔
7۔ شارٹ کٹ کی تلاش:
نوجوان محنت اور دیانت داری کی بجائے شارٹ کٹس کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
8۔ معاشرے میں بگاڑ:
قطار توڑنے کا عمل معاشرے میں ایک عام بگاڑ پیدا کرتا ہے جو وقت کے ساتھ افراتفری اور انارکی کو جنم دیتا ہے۔
9۔ کرپشن اور اقربا پروری:
یہ کلچر کرپشن اور اقربا پروری کو فروغ دیتا ہے، کیونکہ لوگ اپنی باری کا انتظار کرنے کی بجائے اثر و رسوخ اور پیسے کا استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
10۔ ناانصافی اور حق تلفی:
میرٹ کی خلاف ورزی سے مستحق افراد اپنے حقوق سے محروم رہ جاتے ہیں اور ناانصافی اور حق تلفی کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔
11۔ معاشرتی اعتماد میں کمی:
جب معاشرے میں انصاف کا نظام کمزور پڑتا ہے تو لوگوں کا معاشرتی اداروں اور حکومتی نظام پر اعتماد کم ہو جاتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں میرٹ کی خلاف ورزیاں اور اس کے نتائج:
بدقسمتی سے، پاکستانی معاشرے میں میرٹ کی خلاف ورزیاں ایک عام مسئلہ ہیں۔ چاہے وہ سرکاری نوکریوں میں بھرتی ہو، تعلیمی اداروں میں داخلے، حتی کہ روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے کام، ہر جگہ سفارش، رشوت اور اقربا پروری نے میرٹ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں قومی سطح پر جو بگاڑ پیدا ہوا ہے اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
1۔ نااہل افراد کی تعیناتی:
میرٹ کی پامالی کے باعث نااہل افراد اہم عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں جس سے قومی اداروں کا معیار گر جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں قومی ترقی کا عمل بھی زوال پذیر ہو جاتا ہے
2۔ قابلیت کی ناقدری:
باصلاحیت اور محنتی افراد کو ان کی قابلیت کے باوجود مواقع نہیں ملتے، جس سے ان میں مایوسی اور محرومی پیدا ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں بہت سے ہونہار نوجوان ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
3۔ انصاف کا فقدان:
معاشرے سے انصاف کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے اور لوگ اپنے حقوق کے حصول کے لیے غیر قانونی راستے اپنانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
4۔ بدامنی اور بے چینی:
میرٹ کی خلاف ورزیوں سے معاشرے میں بدامنی اور بے چینی بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ لوگوں میں یہ احساس پختہ ہوتا جا رہا ہے ہے کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔
5۔ قومی ترقی میں رکاوٹ:
کوئی بھی معاشرہ جہاں میرٹ کا احترام نہ ہو، وہ کبھی بھی حقیقی معنوں میں ترقی نہیں کر سکتا۔ نااہل قیادت اور بدعنوانی کا کلچر ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
قومی اداروں کی تباہی: جب میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نااہل افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے تو اس کا براہ راست اثر قومی اداروں کی کارکردگی پر پڑتا ہے۔ یہ ادارے، جو ملک کی ترقی اور استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، اندرونی طور پر کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔ فیصلوں میں تاخیر، بدعنوانی، اور غیر معیاری کارکردگی عام ہو جاتی ہے تو عوامی خدمات کا نظام مفلوج ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال بالآخر قومی اداروں کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچاتی ہے اور عوام کا ان پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
6۔ برین ڈرین (ذہین افراد کی ہجرت):
میرٹ کی پامالی کا ایک انتہائی خطرناک نتیجہ “برین ڈرین” یعنی ذہین اور باصلاحیت افراد کی ملک سے ہجرت ہے۔ جب نوجوان دیکھتے ہیں کہ ان کی قابلیت اور محنت کو سراہا نہیں جا رہا اور ترقی کے مواقع صرف سفارش یا رشوت کے ذریعے ملتے ہیں، تو وہ مایوس ہو کر بہتر مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے تھے، لیکن میرٹ کی عدم موجودگی انہیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس سے ملک قیمتی انسانی وسائل سے محروم ہو جاتا ہے اور ترقی کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔
7۔ پاکستانی سرمایہ کاروں کی ہجرت:
میرٹ کی خلاف ورزی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدعنوانی اور غیر یقینی صورتحال مقامی سرمایہ کاروں کو بھی ملک سے ہجرت پر مجبور کرتی ہے۔ جب سرمایہ داروں کو یہ یقین نہیں ہوتا کہ ان کے کاروبار کو منصفانہ اور شفاف ماحول ملے گا، اور انہیں ہر قدم پر رشوت اور سفارش کا سامنا کرنا پڑے گا، تو وہ اپنے سرمائے کو ایسے ممالک میں منتقل کر دیتے ہیں جہاں انہیں بہتر اور محفوظ کاروباری ماحول میسر ہو۔ اس سے ملک میں سرمایہ کاری کم ہو جاتی ہے، روزگار کے مواقع ختم ہوتے ہیں اور معیشت مزید کمزور پڑ جاتی ہے۔
8۔ بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی:
میرٹ کی عدم موجودگی اور بدعنوانی کا کلچر بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ کوئی بھی غیر ملکی سرمایہ کار ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہوتا جہاں قانون اور انصاف کا نظام کمزور ہو، میرٹ کا احترام نہ ہو اور بدعنوانی عام ہو۔ بین الاقوامی سطح پر ہر سرمایہ کار شفافیت، انصاف اور مساوی مواقع کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب انہیں یہ یقین نہیں ہوتا کہ ان کی سرمایہ کاری محفوظ رہے گی اور انہیں منصفانہ مقابلے کا موقع ملے گا تو وہ دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ اس سے ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) میں کمی آتی ہے، جو کسی بھی ترقی پذیر ملک کی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہوتی ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ قطار اور میرٹ کا احترام ایک صحت مند اور مہذب معاشرے کی تعمیر کے علاوہ قومی ترقی کی بنیاد ہے۔ ہمیں انفرادی اور قومی سطح پر ان اصولوں کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک بہتر اور انصاف پسند معاشرہقائمہوسکے
تحریر:عبدالجبار ترین